تبصرہ نگار : نعیم واعظ (لندن، یو کے )
ڈاکٹر بشیر خزان نادان صاحب سے میرا غایبانہ تعارف سن 1985 سے ہے۔ آپ کی اُردو شاعری کی کتاب ، رختِ سفرـ ِپادری عمانویل انجیلی مرحوم کی وساطت سے پڑھنے کو مِلی، اِس طرح سے آپ کو مزید جاننے کا موقعہ میسر ہوا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی پنجابی شاعری کی نٔی کِتاب دُھپاں، چھانواں ، جھڑیاں، ایک اور کرم فرما کی معرفت پڑھنے کا شرف نصیب ہوا تو داد دینے کو اِس قدر دِل چا ہا کہ قلم اٹھاۓ بغیر رہا نہ گیا.
گو میرا تعلق پنجاب سے ہے، اور پنجابی میری مادری زُبان ہے لیکن میں بولنے اور سُننے کی حد تک پنجابی ہوں۔ پنجابی
لِکھنا اور پڑھنا ہر پنجابی کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹر بشیر خزان نادان صاحب کی کِتاب دُھپاں، چھانواں ، جھڑیاں، اپنے اندر بہت سے معنی اور یادیں چھپاۓ ہوۓ ہے۔ کتاب کا نام پڑھتے ہی پنجاب کے دیہات کا مخصوص کلچر، ماحول اور موسم نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔اور یوں بےشُمار یادوں کے دریچے کھُل جاتے ہیں۔ دیہات کا ماحول سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کڑکتی دُھوپ،ٹاہلی کی گھنی چھاؤں، برگد کے پیڑ، برسات کی جھڑی، جوہڑ، کھال اور نہریں کیا معنی رکھتی ہیں۔
شاعر موصوف طویل عرصہ سے امریکہ میں بُودوباش رکھنے کےباوجود آج بھی اپنی مٹی سے جُڑے ہُوے نظر آتے ہیں۔ اپنے گاؤں اور بچپن کی تمام یادیں اور ذایٔقےآج بھی اُنکا سب سے مُعتبر حوالہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شاعری کی زبان میں بہت گہری اور سچی باتیں کرتے ہیں، اور اُنکی باتوں میں جذبات کی نمی اور احساس کی خوشبو محسوس کی جا سکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ دُھپاں، چھانواں ، جھڑیاں کے معنی صِرف وہی نہیں جو میں پہلے بیان کر چُکا ہُوں بلکہ اِس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ایک محنت کش کا بیٹا اپنی زندگی کی ابتدایٔ کڑکتی دھوپ کی مانند سختیوں، تلخیوں، اور حقیقتوںکو جھیلنے کے بعد کامیابی اور کامرانی کی چھاؤں میں بیٹھا ماضی کے سودوزیاں کا حِساب کرتے ہوے اپنی تلخ و شیریں یادوں کو جو اُس کے اندر جھڑیوں کی صورت میں موجود ہیں، اشعار کی صورت میں قاریٔن کے سامنے بھرپور تاثر کے ساتھ پیش کرتانظر آتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جہاں ماضی کی رواداری اور محبتوں کا ذِکر کرتے ہیں وہیں اُنہیں احساس ہے کہ جو خلوص اور محبت، برداشت اور رواداری گٔے دنوں میں ہمارے معاشرے اور بالخصوص ہمارے دیہاتی کلچر کا خاصہ تھا وہ اَب عنقا ہو چکا ہے۔ :ملاحظہ فرما یٔں
کٹھا جیوناں مرنا سی وسنیکاں دا
جھگڑا ڈِٹھا سُنیا نہ شریکاں دا
اونج دا ایکا اج تے لبھیاں لبھدا نیٔں
پِنڈ پِنڈ کال سنیندا اے شرِیفاں دا
ڈاکٹر بشیر خزاں صاحب محبت کے شاعر ہیں۔ اُنکے کلام میں اپنے عقیدے
اپنی دھرتی، سماج، اپنے رِشتوں اور دوستوں سے محبت کا اظہار جابجا مِلتا ہے۔ جہاں وہ اپنے ماضی کے ساتھ جُڑے نظر آتے ہیں، وہیں وہ ہرحال میں خُداۓبزرگ وبرتر کے حضورسجدہ ریز نظر آتے ہیں۔
سوہنے رَب نے مہربے انت کیتی
بے وُقعت نو ککھ تو لکھ کیِتا
بخشن ہار نُو گندھ چوں کِیہ لبھا
ڈیگھ کُوڑے چو لعل نو وکھ کِیتا
ڈاکٹر صاحب کے کلام میں اُن کے اندر چھُپا ہوا صوفی شاعر پورے قدوقامت کے ساتھ نظر آتا ہے۔میں ڈاکٹر صاحب کو اِس خوبصورت کِتاب کو منظرِعام پر لانے پر مُبارکباد دیتا ہُوں ۔ یہ کتاب، دُھپاں، چھانواں ، جھڑیاں، خوبصورت سرِورق، عُمدہ چھپایٔ، اور نہایت خوبصورت کلام دُنیاے ادب میں یقینن اک انمول اضافہ ہے۔
(Editor's note: Naeem Waiz is cuwap.org's UK representative and book reviewer.)
© Akhtar Injeeli 31/01/2013