اصناف: شاعری، افسانہ، ناول، کالم، مضامین۔
بیتی زندگی کا مکالمہ۔
دسمبر(1956) کی سرد ترین رات تھی.تین گلیوں پر مشتمل سیالکوٹ شہر کے اس منفرد محلے میں رات کے سناٹے میں کبھی
کبھار ایک نسوانی خوبصورت آ واز اُبھرتی جو صدیوں پرانا ایک مذہبی
گیت سُر اور لَے میں سفید دھند میں بکھیرتی ہوئی چند لمحوں بعد خاموش ہو جاتی اور اس کے مکین جو دوسرے درجہ کے شہری کہلاتے تھے صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اس ملک کا سرکاری مذہب اپنانے کی بجائے اپنی پسند کا مذہب اختیار کر لیا تھاـ
تینوں گلیوں کے تقریبا تمام افرادکرسمس مڈنائٹ عبادت کے لئے مقامی چرچ گئے ہوئے تھے اور کچھ صبح آنے والے مذہبی تہوار کی تیاریوں میں مصروف تھے اور کچھ گلی کے اختتام پر کھلے میدان میں برگد کے پرانے درخت کے اردگرد زمین پر چٹیاں پر بیٹھے صبح کے لئے مٹھائیاں تیار کر رہے تھے اور کچھ من چلے گُپی اور بھنگ پینے میں مصروف تھےـ
میری دادی اور ماں گھر پر تھیں. ماں درد زہ کی وجہ سے کراہ رہی تھی.اور دادی آنسوؤں کے ساتھ اُسے تسلی دے رہی تھی.پھر(۲۵ ) پچیس دسمبر کے دن کے آغاز کو ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ میں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی.دادی نے میرے رونے کی آواز پر اطمینان کا سانس لیا. اور میری ماں نے میری طرف ایک دل آویز مسکراہٹ سے دیکھاـ
میری دادی جب رات سونے سے پہلے مجھے کہانیاں سنایا کرتی تھی تو اُن میں آخری کہانی میری پیدائش کی ہوا کرتی تھی.ایک اور کہانی جو آج بھی میرے ساتھ ہجرت کے ہر سفر میں ہمسفر رہتی ہے وہ تھی میرے آبا و اجداد کی حکمرانی اور ہجرت کی داستان،جو افغانستان کے علاقہ غور سے شروع ہو کر اٹلی کے شہر فیدنسا ؔ تک آ پہنچی ہے.میرے آبا و اجداد شہاب الدین غوری کے ساتھ درہ گومل کے راستے موجودہ پاکستان میں داخل ہوئے او ر بہت ساری فتوحات کے بعدجب شہاب الدین غوری کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے پنجاب میں ہونی والی بغاوت کو کچل کر واپس لوٹ رہا تھے کہ دریائے جہلم کے کنارے آرام کی غرض سے پڑاو لگایا گیا وہاں ایک رات ایک باغی فدائی نے چھپ کر حملہ کیا یہ حملہ رات کے اندھیرے میں اچانک کیا گیا کہ کسی کو اس حملے کی خبر تک نہ ہوئی یوں فوج کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا اور محمدغوری کو قتل کردیا گیا بادشاہ قتل ہونے کے بعد سب کو اپنی جان بچانے کے لئے ہند و پاک کے مختلف علاقوں میں پناہ لینی پڑی۔ میرے اباوء اجداد بھی کچھ مارے گئے کچھ قید ہوئے اور کچھ دشمن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اس خطے میں زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہےـ
قصہ مختصر یہ کہ میرے دادا کا کوئٹہ کے بعد سیالکوٹ میں ایک مزدور کی حیثیت سے آ خری پڑاؤ ہوااور یہاں پرہی وہ مدفن ہیں. میرے والد اپنے بھائیوں میں بڑے ہونے کی وجہ سے میرے دادا کے زیادہ قریب تھے لہذا وہ بھی سیالکوٹ میں دادا دادی کے ساتھ آ گئے میرے دادا کی خواہش پر میرے والد نے دوسری عالمی جنگ میں پاکستانی فوجی کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی مگر کچھ ہی عرصہ بعد فوج کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ انھیں کسی انسان کو جان سے مارنا یا دکھ دینا پسند نہیں تھا . اور نہ ہی وہ ہمیں یتیم کرنا چاہتے تھے. دوسری وجہ میری ماں تھی جو میرے باپ کے بغیرایک دن بھی اکیلی نہیں رہ سکتی تھی میرے باپ نے فوج کو خیر باد کہہ دیا صرف میری ماں کی محبت کی وجہ سے اور مستقبل کے بارے میں لاعلم رہے کوئی ہنر بھی ہاتھ میں نہیں تھا اور سکول بھی پرائمیری تک ہی کیا تھا اس طرح انہوں نے دادا کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا شروع کیا
ستمبر، 1965میں جب انڈیا سے جنگ ہوئی ہمارا محلہ بھی انڈین طیاروں اور توپوں کی بم باری کی زد میں آیا میرے ماموں کا گھر جو دوسری گلی میں واقع تھا دو بم گرنے کی وجہ سے تباہ ہو گیا اور ماموں کے علاوہ کئی افراد مارے گئے ریڈیو پاکستان پر بار بار اعلان کیا جا رہا تھا کہ شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ شہر خالی کر دیں اور محفوظ مقامات کی طرف چلے جائیں میرے والد بھی گھر کا سارا سامان جہاں پر تھا اور جیسے تھا چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں نکل پڑےاسطرح میرے والد لائل پور ہجرت کر آئے .ہم (۹) نو بہن بھائی ہیں.جن میں آخری تین زکریا،میں اور رانی سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور باقی کی ولادت کوئٹہ میں ہوئی . ایک بہن جوپانچویں نمبر پر تھی.جو مجھے بہت پیار کرتی تھی اس کے ہاتھ کابنا ہوا کھانا بہت مزیدار ہوتا تھا . اس کو آگ نے جلا کر راکھ میں بدل دیا.اب وہ فلک پر ہے.
پرائمری تعلیم میں نے سیالکوٹ کے سینٹ انتھونی ہائی سکول سے شروع کی اور لائل پور کے سینٹ انتھونی پرائمری سکول میں مکمل کرنے کے بعد گوجرہ کے فاطمہ ہاوس (بورڈنگ) میں رہ کر سینٹ البرٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا میں آٹھویں جماعت میں تھا کہ کہ میری ماں ایک خطرناک بیماری کی بھینٹ چڑھ گئی. گورنمنٹ کالج لائل پور سے ایف اے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن پاس کیا.اورلاسال ہائی سکول فیصل آبادمیں بطور استاد تقریبا پانچ سال کام کیا اور پھر مختلف کاروبار کیے جن میں ناکام رہا.مگر میں اس دوران فری لائنس صحافی کے طور پرتین غیر ملکی نیوز ایجنسوں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ شاعری کے ساتھ افسانہ نگاری میں بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہا، 1981 میں شادی کے بعد مجھے ہیومن رایٹس آفس لائل پور میں بطور ایگزیگٹو سیکرٹری خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا، مگر معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور دوسرے ترقی پسندی کا جذبہ مجھے کچھ کرنے پر مجبور کرتا تھا ایک اور وجہ بھی جو میرے اندر زندگی کے ختم ہونے کے خوف کی صورت میں مسلسل مجھے دیمک کی طرح چاٹنے لگی تھی وہ مذہبی تعصب کے ساتھ تشدد کے مسلسل بڑھتے ہوئے رجحان کی صورت تھا اس کے ساتھ پاکستانی معاشرے کی پیچیدگی اور
نا ہموریوں کی وجہ سے مجھے وطن کو خیرباد کہنا پڑا.او ر یوروپ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اٹلی کو اپنا مسکن بنانا پڑا .جہاں تاحال بیوی بچوں کے ساتھ زندگی کے باقی دن لکھنے پڑھنے اور صحافت کی ورق گردانی میں بسر کر رہا ہوںـ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Jeem Phey Ghauri's Literary works
1. Sitara, Nadi aur Main - Urdu poetry, 2016
2. Hath par diya rakhna - Urdu poetry, 2008
3. Naddi main utarta sitara - Urdu poetry, 2011
4. Khawab ki Kashti par - Urdu poetry (Mahiya), 2011
5. Naiee rut kay geet - Urdu songs, (1986)
6. Laraeb - Collection of short stories in Urdu, 1981
7. Shatranj, larki aur faltoo cheeze - Collectin of short stories in Urdu, 1981
8. Christian Muslim Interaction - An important need of the hour, 8 articles 1994
9. Essays - (Misc. Urdu articles) 2011
10. Children's Bible
11. Talash series: Yasu Number, Nazir Qasir Number & Griffin Jones Sharar Number)
12. We, the Lost People - a novel (in publication process)
13. Barghazida Haseen loge, Urdu poetry (in publication process)
14. Aman, insaf aur Muhabbat, Urdu songs (in publicaton process)
15. Diwan-e Jeem Phey Ghauri - an anthology (in publication process)
© Akhtar Injeeli 15/10/2016